ایک نشست سید بابر علی صاحب کے ساتھ ۔ بحران کے وقت میں رہنمائی

جنوری میں مجھے ای او  (اینٹر پرینیور آرگنا ئزیشن) کی طرف سے ملک کی معزز اور معروف شخصیت  جناب سید بابر علی صاحب  کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا ۔ سید بابر علی صاحب  صنعت و تجارت کی دنیا میں ایک درسگاہ کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی زہانت ، علم و حکمت  اور اعلیٰ پائے کے منتظم ہونے کی وجہ سے  پیکجز لمٹیڈ         ، این ایف سی ،نیسلے اور لمز یونیورسٹی جیسےعظیم مثالی ادارے وجود میں آئے۔

سید بابر علی صاحب کی پاکستان کے لیے نہایت قابلِ قدر خدمات ہیں جن کا ایک ہی نشست میں احاطہ ممکن نہیں۔ بابر علی صاحب  نے پاکستان کی پیدائش سے لیکر آج تک کے مختلف ادوار کو دیکھا ہے اور ملک میں کرونا وائرس کے بحران سے پہلے آنے والے بحرانوں کو نہ صرف دیکھا بلکہ  اُن سے نبرد آزما ہونے   کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔  میرےپہلا سوال  دنیا کو درپیش کرونا وائرس کی وباء جیسے بحران کے بارے میں تھا کہ کیا آپ نے اِس سے پہلے کسی ایسے بحران کا سامنا اپنی زندگی میں کیا اور آپ اِس صورتحال میں کاروباری لوگوں کی کیسے رہنمائی کریں گے ۔ اِس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال بالکل انوکھی ہے  لیکن پاکستان کو اپنے قیام کے فوراً بعد ہی بہت سے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں پہلا مارشل لا اور ذوالفقار علی بھٹو کا اداروں کو نیشنلائز کرنے  کا فیصلہ جیسی صورتحال شامل تھیں لیکن آج کی صورتحال اُن بحرانوں سے مختلف ہے ۔ اِس بحران میں لوگوں کو کسی مارشل لا کی وجہ سے اپنے گھروں میں مقید نہیں ہونا پڑ رہا بلکہ پوری دنیا میں لوگوں کو اپنی صحت کی حفاظت کی خاطر خود کو اپنے گھروں تک محصور کر نا پڑ رہا ہے۔ایسی صورتحال میں لوگوں کو چاہئے کہ وہ افراتفری کا شکار نہ ہوں اور اپنے اعصاب کو قابو میں رکھیں۔

سید بابر علی صاحب کے مطابق کاروبار کرنے والے لوگوں کو اِس وباء کے بعد نئی صورتحال کے مطابق خود کو ڈھالنے کی ضرورت ہے کیونکہ کہ اِس کے بعد زمینی حقائق بالکل تبدیل ہو چکے ہیں ۔ اِس بیماری کے بعد لوگوں کو ٹیکنالوجی کے استعمال کی زیادہ ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور اِس ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہی ہم اپنے روز مرہ کے معمولات کو انجام دینے کی کوشش کر سکتے ہیں۔  اتنے پڑے بحران میں حکومت سے توقع کرنے سے بہتر ہے کہ خود بہتری کی راہیں تلاش کی جائیں۔  اپنے  ادارے میں کام کرنے والوں کو اپنا ملازم سجھنے کی بجائے اپنے ساتھی سمجھیں جو کہ ادارے کی فلاح کی خاطر آپ کے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں۔ لوگوں کو غلطیوں کی وجہ سے ادارے سے نہیں نکالنا چاہئے سوائے کرپشن کے چاہے وہ ایک روپے ہی کی کیوں نہ ہو۔ 

اِس وباء کے تناظر میں بہتر کاروباری  مواقع کے بارے میں  ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان  ہمارے ہمسائے ملک کے مقابلے میں زیادہ مسائل کا شکار ہے یہاں کاروبار کرنے کے لیے سازگار ماحول ابھی میسر نہیں ہے جس کی مختلف وجوہات ہیں۔ روپے کی قدر میں ہونے والے آئے روز کے اتار چڑھا ؤ سے کاروباری لوگوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ روپے میں استحکام مضبوط معیشت کی راہ ہموار کرے گا۔ ہمیں اپنی برامدات کو بڑھانے پر زور دینا چاہئے۔  بیرونی سرمایہ کاری کے لیے آپ کے ملک میں سازگار ماحول ضروری ہے۔ آپ کو اپنے شراکت دار کو برابر کا درجے دینا چاہئے۔

سید بابر علی صاحب نے ایک چلتی ہوئی کمپنی کو استحکام دینے کے لیے بتایا کہ اگر کاروبار کو صرف ایک خاندان تک محدود  کر دیا جائے تو وہ پائے دار حل نہیں ہے۔ اِس سے بہتر ہے کہ ایک بہترین کاروبار کو پبلک لمٹیڈ بنا دیا جائے اور اِس میں لوگوں کو حصہ دار بنا دیا جائے۔  یہی وہ طریقہ ہے جس سے کسی کاروبار کو ایک طویل مدتی  استحکام مل سکتا ہے۔

آپ اپنی زندگی کے بہترین کاموں میں سے ایک کام لمز کے قیام کو سمجھتے ہیں جہاں پر سترہ ہزار سے زائد طلبا ء نے علم حاصل کیا اور اپنے خاندان اور ملک کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں۔  خوشی کی بات یہ ہے کہ اِن طلباء میں سے بہت سے ایک اینٹرپرینیور کے طور پر ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔

 

بچوں پر تشدد
بچوں پر تشدد

ہم جب بھی بچوں پر تشدد کا سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں تین طرح کا ’بچوں پر تشدد‘ کا خیال آتا ہے۔جن . . .

پرائمری تعلیم کی اہمیت
پرائمری تعلیم کی اہمیت

پرائمری تعلیم لازمی بنیادی تعلیم کا پہلا قدم ہے۔ یہ تعلیم چار سال سے دس سال کے بچوں کو دی جاتی . . .

بلوچستان کی تعلیمی حالت
بلوچستان کی تعلیمی حالت

بلوچستان پاکستان کا رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ مگر آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ . . .