خیبر پختونخواہ میں تعلیمی اصلاحات

موجودہ حکومت کو کام کرتے ہوئے یہ پانچواں سال اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے اور 2018ء الیکشن کا سال ہے۔ گزشتہ پانچ سال میں پورے پاکستان کی ساری حکومتوں کو بھرپور کام کرنے کا موقع ملا۔ ہر جماعت اپنے اپنے منشور کے مطابق کام کرنے میں مکمل آزاد تھی۔ ہماری توجہ چونکہ تعلیم کی طرف ہے تو ہم چاروں صوبوں میں تعلیم پر کئے گئے کام کو دیکھیں گے کہ کون کون سی حکومت نے تعلیم کے میدان میں کیا کیا کام سرانجام دیا ہے۔ سب سے پہلے خیبر پختونخواہ کی حکومت کی کارکردگی کو زیرِبحث لائیں گے کیونکہ  خیبر پختونخواہ کی حکومت نے الیکشن میں اپنی پہلی ترجیحات میں تعلیم کو صفِ اول میں رکھا تھا۔
جب  خیبر پختونخواہ حکومت کی  تعلیم میں اصلاحا ت کا جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ خیبر پختونخواہ  میں تعلیم کے میدان میں کافی کام ہوئے ہیں۔آیئے اِن کاموں پر نظر دوڑاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا  خیبر پختونخواہ  حکومت اپنے کیے گئے وعدوں کے مطابق تعلیم کے میدان میں کچھ کرسکے ہیں یا نہیں؟
سب سے پہلے اِس بات کو جاننے کی کوشش کی گئی کہ  خیبر پختونخواہ  کی حکومت نے اپنے پانچ سالوں میں اسمبلی میں کسی بھی قسم کی تعلیم کے لیے کتنے بلز پاس کئے تو 2017ء تک  خیبر پختونخواہ  حکومت نے کسی بھی قسم کی تعلیم کے لیے کل دس بل صوبائی اسمبلی سے منظور کروائے ہیں اِن بلوں کی تفصیل کچھ یوں ہے:
The Khyber Pakhtunkhwa Higher Education Scholarship Endowment Fund Bill, 2014.
The Khyber Pakhtunkhwa Elementary and Secondary Education Foundation (Amendment) Bill,2014
The Khyber Pakhtunkhwa Medical Teaching Institutions Reforms Bill,2015
The Khyber Pakhtunkhwa Universities(Amendment) Bill,2015
The Khyber Pakhtunkhwa Medical Teaching Institutions Reforms(Amendment) Bill,2015
The Khyber Pakhtunkhwa Universities (Amendment) Bill, 2016
The Khyber Pakhtunkhwa Higher Education Academy of Research and Training Bill, 2016
The Khyber Pakhtunkhwa Regularization of Services of Teaching Assistants as Lecturers Bill,2016
The Khyber Pakhtunkhwa Free Compulsory Primary and Secondary Education Bill, 2017
The Khyber Pakhtunkhwa Technical Education and Vocational Training Authority(Amendment) Bill,2017
 ٓاِن بلوں کے اثرات اور نتائج تو وقت اور حکومتی کارکردگی پر منحصر ہیں مگر حکومتی دعووں کے مطابق اِن پانچ سالوں میں انہوں نے تعلیم میں جو اہداف حاصل کئے وہ درج ذیل ہیں۔
مفت کتابوں کی فراہمی:  (Provision of Free Text Books)
طالبِعلموں کو مفت کتابیں فراہم کرنے کے لیے حکومت نے دو ارب پچاس کروڑروپے سال  2015,2016ء  میں خرچ کیے۔اِس رقم سے چار کروڑ پچاس لاکھ کتابیں خرید کر اکتالیس لاکھ طالبِ علموں میں تقسیم کی گئیں۔
لڑکیوں میں تعلیم کی حوصلہ افزائی کے لیے وظیفہ کی فراہمی:  (Provision of Stipends to Girl Students)
اِس پروگرام کو  ( Girls Stipend Programme)  کا نام دیا گیا ہے۔اِس پروگرام کے تحت چھٹی جماعت سے دسویں جماعت تک کی چار لاکھ تینتالیس ہزار دو سو چار طالبِ علم بچیوں کو وظیفہ دیا گیا۔ یہ وظیفہ دینے کا مقصد معاشی طور پر کمزور بچیوں کو تعلیم کی فراہمی جاری رکھنا ہے۔
کمیونٹی بیسڈ لڑکیوں کے سکول:  (Community Based Girls School)
کمیونٹی بیسڈ سکولوں کی تعداد سن2013ء میں  13651لڑکیوں کے لیے  196سکول تھی۔ سن 2016ء تک اِن سکولوں کی تعداد 196 سے بڑھ کر  1251تک پہنچ چکی ہے اور پڑھنے والی لڑکیوں کی تعداد 43220  تک پہنچ چکی ہے۔اِتنی تعداد میں لڑکیوں کے سکولوں میں داخلے ایک کامیابی سے کم نہیں۔ایلیمنٹری ایجوکیشن فاؤنڈیشن (EEF)  خیبر پختونخواہ کے مطابق اِس وقت کمیونٹی بیسڈ سکولوں میں ایک ارب چالیس کروڑ کی گرانٹ سے 68000طا لبِ علم زیرِ تعلیم ہیں اور اِن کو پڑھانے کے لیے اُن ہی کی کمیونٹی سے 1644خواتین اساتذہ خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔
ستوری دا پختونخواہ ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام:  (Stoori Da Pakhtunkhwa Talent Hunt Programme)
اِس پروگرام کے تحت پورے صوبے میں سے باصلاحیت نوجوانوں کو وظائف دیے جاتے ہیں۔ پچھلے تین سال کے دوران 585   طلبہ کو  چھبیس کروڑ روپے سالانہ وظائف کی مد میں ادا کیے گئے ہیں۔
آئی ٹی لیب:  (IT Laboratories)
سن 2013ء تک پورے خیبر پختونخواہ میں آئی ٹی لیب کی تعداد 170   تھی۔ 2013 ء سے لیکر آج تک اب کل تعداد 670   تک پہنچ چکی ہے۔اِس کے علاوہ پورے خیبر پختونخواہ کے 14   اضلاع میں ایک سو  اِنٹیر ایکٹیو وائٹ بورڈز (Interactive whiteboards)  لگائے گئے ہیں اور اِن کو چلانے کے لیے سولر پینل سے بجلی فراہم کی گئی ہے۔
اساتذہ ترغیبی پروگرام۔ (Teachers Incentive Programme)
خیبر پختونخواہ کے اساتذہ کی حوصلہ افزائی کے لیے اِس پروگرام کا آغاز تاریخ میں پہلی دفعہ 2014 میں کیا گیا۔  2014-15ء میں 840  اچھی کارکردگی دیکھانے والے اساتذہ، ہیڈماسٹرزاور پرنسپلز کوساڑھے پانچ کروڑ روپے کے انعامات سے نوازا گیاہے۔اِس سال سن 2015-16ء کے لیے یہ رقم بڑھا کر گیارہ کروڑ کر دی گئی ہے۔اِن اقدامات کے نتیجے میں طالبِ علموں کے امتحانی نتائج میں بہتری،داخلوں میں اضافہ،اساتذہ اور ٹیچر کی حاضری میں بہتری جیسے نتائج دیکھنے میں آئے ہیں۔
اساتذہ کی تربیت کا اقدام:  (Teachers Training Initiative)
2013ء سے چھیاسٹھ ہزار نو سو پانچ اساتذہ کو تربیت کے مراحل مکمل کروائے گئے ہیں۔اساتذہ کو تربیت کے لیے آٹھ کروڑ کے فنڈز مہیا کئے گئے۔اِن اساتذہ کو تربیت کے لیے مختلف اداروں سے معاونت حاصل کی گئی۔ اِن اداروں میں  Socio Engneering،  Afaq Education، 
 Beacon House School system،  Portal Education جیسے ادار ے شا مل ہیں جن سے تربیت حاصل کی گئی۔
ٓاساتذہ کی شفاف بھرتی کا نظام:  (Approval for merit-based Teacher Recruitment Policy)
تاریخ میں پہلی دفعہ این ٹی ایس  (NTS)  کے ذریعے 25000اساتذہ کی بھرتی کی گئی ہے۔اور اِس بات کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے کہ چالیس بچوں کے لیے ایک استاد کے تناسب کا خیال رکھا جائے۔ اِس تمام عمل میں انسانی مداخلت کے عمل کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔

آزاد نگرانی کے نظام کا آغاز:  (Independent Monitoring Unit) 
آزاد نگرانی کے نظام کا آغاز 2013ء میں پہلی دفعہ خیبر پختونخواہ میں کیا گیا۔اُس وقت سے آج تک 441غیر فعال سکولوں کو فعال بنایا گیا ہے۔اِس عمل سے 8000  اساتذہ پر تادیبی کاروائیاں عمل میں لائی گئیں ہیں۔  300اساتذہ کو اُن کی ملازمت سے برخواست کر دیا گیا۔اور تقریباً انیس کروڑ روپے جرمانے کی مد میں وصول کیے گئے اِن جرمانوں میں سے تقریباً پندرہ کروڑ اُن اساتذہ میں تقسیم کر دیئے گئے جنہوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔اِس سارے عمل سے غیر حاضری  میں 8%سے  10%تک قابو پالیا گیا ہے۔
چھ کمروں کے پرائمری سکول کا قیام:   (Establishment of 6-Room Primary Schools)
نئی پالیسی کے تحت چھ کمروں کے پرائمری سکولوں کا آغاز کیا گیا ہے۔اِس ضمن میں 360سکول زیرِ تعمیر ہیں۔اِن سکولوں کے بننے سے دو لاکھ بچے زیورِ تعلیم سے استفادہ حاصل کر سکیں گے۔
سکولوں میں فرنیچر:  (Furniture In Schools)
2013ء کے بعد سے اب تک سکولوں میں فرنیچر کی مد میں اڑھائی ارب روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ یہ اڑھائی ارب روپے پورے صوبے کے پانچ ہزار سے زیادہ سکولوں میں لگائے گئے ہیں جن سے چارلاکھ تیس ہزار بچوں کو ٹاٹ کی بجائے کرسیاں مہیا کر دی گئی ہیں۔
پرائمری سکولوں میں کھیل کے میدان:  (Play Areas In Primary Schools)
2013ء سے پہلے دس سال تک کسی بھی سکول میں ایک بھی کھیل کا میدان نہیں بنایا گیا۔ 2013ء سے لیکر آج تک  2583سکولوں میں بچوں کے کھیلنے کے میدان بنا دیئے گئے ہیں۔اور اِن کے معیار کو اتنا اچھا رکھا گیا ہے کہ کسی پرائیویٹ سکول کا گمان ہوتا ہے۔ نہ صرف پرائمری سکولوں میں کھیلوں کے میدان بنائے گئے ہیں بلکہ 141 ہائر سیکنڈری سکولوں میں بھی پانچ کروڑ تریسٹھ لاکھ آٹھ ہزار کی رقم سے کھیلوں کے میدان بنائے گئے ہیں۔
قدرتی آفات سے متاثرہ سکولوں کی بحالی:   (Disaster Affected School)
2005ء کے تباہ کن زلزلے میں 760 سکول متاثر ہوئے تھے اِن سکولوں کی بحالی کے لیے آٹھ ارب روپے مختص کئے گئے اور اب یہ سکول بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔
سپورٹس کے سامان کی فراہمی:  (Promotion of Sports Facilities)
خیبر پختونخواہ میں پہلی دفعہ پانچ ہزار سکولوں میں پانچ کروڑ کی لاگت سے کھیلوں کا سامان مہیا کیا گیا ہے اِس طرح بچوں میں سکول کی سطح پر کھیلوں کو فروغ دیا جا سکے گا۔
اقراء فروغِ تعلیم سکیم:  (Iqra Farogh-e-Taleem Vouchers Scheme (IFTVS)
اِس سکیم کے تحت بچوں کو واؤچر دیئے گئے ہیں تاکہ بچے اپنے قریبی پرایؤیٹ اداروں میں داخلہ لے سکیں۔اِس سکیم کے تحت تین کروڑ چھتیس لاکھ کی رقم سے 13858طالبِ علموں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ یہ سکیم ایلیمنٹری ایجوکیشن فاؤنڈیشن(EEF) اور پرائیویٹ سکولوں کے اشتراق سے بنائی گئی ہے۔
سکول مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم:    (School Management Information System SMIS)
سکولوں کی حالت اور ضروریات کو جاننے کے لیے سکول مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم متعارف کروایا گیا ہے۔اِس پر پانچ کروڑ پچاس لاکھ روپے لاگت آئی ہے اور اِس کا نفاذ پورے خیبر پختونخواہ کے سکولوں میں کیا جائے گا۔
بائیو میٹرک حاضری کا نظام:Biometric Attendance System (BAS)  
بائیو میٹرک حاضری کا نظام پورے صوبے کے محکمہ تعلیم کے76  دفاتر میں لگا دیا گیا ہے۔ اِس کے علاوہ پورے صوبے میں 480ہائر سیکنڈری سکولوں میں بھی یہ نظام جاری کر دیا گیا ہے۔
بورڈ آف اِنٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن:  (Board of Intermediate & Secondary Education)
۔  طلبہ اور سکولوں کے لیے آن لائین (Online)  اندراج کا آغاز
۔  امتحانات میں اساتذہ کی کمپیوٹرائزڈ  قرعہ اندازی کے زریعے تعیناتی
۔  امتحانی مراکز کی مرکزی نگرانی کے تحت نگرانی
۔  ففتھ گریڈ کے تحت ایسسمنٹ  (5th Grade Assessments)  جو کہ یکساں تعلیم کی طرف پہلا قدم ہے۔
۔  MCQsکی ایسسمنٹOMRشیٹ کے زریعے(جس سے غلط مارکنگ کا خدشہ دور ہوجاتا ہے)
سکولوں کو سولر پینلز کی فراہمی:  (Provision of Solar Panels in Schools)
2013ء سے پہلے صرف 215   سکولوں میں سولر پینل کی سہولت موجود تھی۔ 2013ء سے آج تک یہ تعداد بڑھ کر 5566ہو گئی ہے اور تقریباً ایک کروڑ بچے اِس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
یہ وہ بنیادی معلومات ہیں جو ہمیں محکمہ تعلیم خیبر پختونخواہ سے ملی ہیں۔ اِس کے علاوہ اور بھی اقدامات ہیں جن کا احاطہ اگلے آرٹیکل میں کیا جائے گا۔ اگر ہم غیر جانبدار ہو کر سوچیں تو صرف چار سال کے عرصہ میں تعلیم کے میدان میں اتنے زیادہ اقدامات کسی معرکہ سے کم نہیں۔ اِسی طرح کے تعلیم میں ہنگامی اقدامات کی پورے ملک میں ضرورت ہے۔ 
بقول علامہ اقبال:
فتوٰی ہے شیخ کایہ زمانہ قلم کا ہے
دُنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
 

 

پرائمری تعلیم کی اہمیت
پرائمری تعلیم کی اہمیت

پرائمری تعلیم لازمی بنیادی تعلیم کا پہلا قدم ہے۔ یہ تعلیم چار سال سے دس سال کے بچوں کو دی جاتی . . .

منکیرہ  (ضلع بھکر)  اور  منکیرہ کی تعلیم
منکیرہ (ضلع بھکر) اور منکیرہ کی تعلیم

منکیرہ ضلع بھکر کی ایک اہم تحصیل ہے۔ یہ تحصیل پنجاب کی شیرگڑھ تحصیل کے بعد سب سے بڑی تحصیل . . .

بلوچستان کی تعلیمی حالت
بلوچستان کی تعلیمی حالت

بلوچستان پاکستان کا رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ مگر آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ . . .