اگر دنیا کی تاریخ کو پڑھا جائے تو یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ دنیا میں انہی لوگوں نے ترقی اور عزت پائی ہے جنہوں نے تعلیم کو اہمت دی ہے اور تعلیم کو اپنی ترجیحات میں سرِفہرست رکھا ہے۔ہر مہذب ریاست ہمیشہ تعلیم کو ہی اپنی اولین ذمہ داری رکھے گی اور معیاری تعلیم ہر طالب علم تک پہنچائے گی۔ اگر اسلام کی رو سے دیکھا جائے تو تعلیم کی اہمیت دوسری عالمی اقوام کی نسبت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ اسلام میں تعلیم کو ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض کیا گیا ہے۔اس بات سے کسی بھی صورت انکار ممکن نہیں کہ پڑھی لکھی قوم ہی ترقی اور استحکام کی ضامن ہوتی ہے۔ اگر ہم پاکستان کے نظامِ تعلیم کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں یہ دیکھنے کو ملے گا کہ یہ نظام بہت سے مسائل اور خرابیوں کا شکار ہے۔اگر ہم تفصیل میں جائیں تو معلوم پڑے گا کہ تعلیمی نظام دہرے معیار کے ساتھ ساتھ پرائمری، مڈل، سیکینڈری،انٹرمیڈیٹ اور ہائر ایجوکیشن، ہر سطح پر مسائل کا شکار ہے۔اور ان سب مراحل پر سیر حاصل بحث اور غوروفکر کی ضرورت ہے۔
لیکن ہم یہاں ہر شعبہ کے چند بنیادی مسائل کا ذکر کریں گے۔
بنیادی طور پر اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ پرائمری یا ابتدائی تعلیم سے لیکر ہائیر ایجوکیشن تک کے معیاری نصاب اور نظام کی ہر وقت اور ضرورت کے مطابق فراہمی اور امتحانات کے انتظامات محکمہ تعلیم کی بنیادی ذمہ دار ی ہے مگر گزشتہ چند دھائیوں سے محکمہ تعلیم کے حوالے سے کچھ ایسے معاملات اور احکامات جاری ہوتے نظر آئیں ہیں جن سے قوم کے ہونہار طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔
سرکاری سکولوں کے نصاب کو اگر دیکھا جائے تو یوں لگے گا جیسے آپ 1960ء کی دہائی میں علم کی روشنی سے منور ہو رہے ہیں جبکہ آ ج کا دور بل گیٹس اور سٹیو جانبر کے دور میں داخل ہو چکا ہے آج کمپیوٹر،آئی فون، ڈیجیٹل لائبریری، ملٹی میڈیا اور ای لائبریری کے بغیر تعلیم ممکن نہیں۔ہمارے سرکاری سکول آج بھی اِن سہولتوں سے صدیوں دور ہیں۔ ہمارے قصبائی اور دیہاتی سکولو ں کے بچے بل گیٹس،سٹیوجانبر، کمپیوٹر،آئی فون،جیسی چیزوں کے نام تک سے واقف نہیں ہیں اور اس جدید دور میں بھی الف انار اور ب بکری سے آگے نہیں پڑ ھ سکے۔ تجربہ کے لیے کسی بھی قصبہ کے سکول کا دورہ کرلیں صورتحال آشکار ہوجائیں گی۔سرکاری سکولو ں کے اساتذہ کی صورتحال بھی ہمارے تعلیمی نظام کی خرابی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔زیادہ تر اساتذہ سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہوئے ہیں جبکہ اساتذہ کو بھی پبلک سروس کمیشن جیسے کسی نظام کے ذریعے بھرتی کرنا چاہئے۔اور ان کو ٹریننگ اور ورکشاپس کے ذریعے پڑھائی اور تعلیم و تربیت کے ہنر سے لیس کرنا چاہئے۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سرکاری سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلنے والے نوجوان ڈگریاں ہونے کے باوجود بے روزگار رہتے ہیں۔جبکہ پرائیویٹ اداروں سے جدید تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کو یورپ، امریکہ اور عرب ریاستوں میں بھاری تنخواہ پر نوکری مل جاتی ہے۔یوں ملک میں اک خلا پیدا ہو رہا ہے۔یہ غریب نوجوان نوکری تو چاھتے ہیں لیکن اِن میں جدید زمانے کی نوکری کی اہلیت نہیں ہوتی۔یہ مایوسی ہمیں خانہ جنگی کی طرف لے جا سکتی ہے۔بلکہ دیکھاجائے تو پڑھے لکھے نوجوانوں کی جرائم میں ملوث ہونے کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔
سب کے لئے یکساں معیارِ تعلیم اور یکساں تعلیمی مواقع کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی پیشِ نظر ہونی چاھئے کہ اِس وقت تقریباً 2.5کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔اِس صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لئے ہمیں جنگی بنیادوں پر ہر سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔پورے ملک میں موجود سکولوں کی حالت بہتر بنائی جائے اورجن علاقوں میں سکول موجود نہیں وہاں سکول تعمیر کئے جائیں۔
ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو اِس کام میں شامل کیا جائے اور سرمایہ کاری کے ذریعے پرائمری سے لیکر یونیورسٹی تک تعلیم کے لئے سکول کھولے جائیں۔ حکومت پورے ملک یا پورے صوبے کے لئے جدید ترین یکساں نصاب بنوائے اور پورے ملک میں سرکاری اور پرایؤیٹ سکولوں میں نافذ کر دیا جائے۔
سہولیات کے لحاظ سے تمام سکول ایک جیسے ہوں اور فیس کی مد میں پچاس فیصد طلبہ سے پوری فیس لی جائے پچیس فیصد سے آدھی اور پچیس فیصد ایسے طلبہ جو فیس نہیں دے سکتے ان کو مفت تعلیم دی جائے۔
ہمارے اداروں کو چاہئے کہ معیاری تعلیم کو یقینی بنائیں اور ڈگریاں تقسیم کرنے کی فیکٹریاں بند کریں۔اگر ہم یونیورسٹیوں کا دورہ کریں تو معلوم پڑے گاکہ ہمارا یونیورسٹی کا طالبعلم نالج،ٹیکنالوجی اور اعتماد میں بہت پیچھے ہے۔ہمارے طالبعلم اخبارات اور کتابوں کو پڑھنا گوارا نہیں کرتے۔جس کی وجہ سے اِن کا نالج صرف کورس کی حد تک محدود ہے۔اور اکثر تو اپنے کورس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔
محکمہ تعلیم کو چاہئے کہ اِس بات پر زور دے کہ گریجوایشن اور پوسٹ گریجوایشن تک معیار اور امتحان کو اتنا سخت کرے کہ کورس کے ساتھ ساتھ بچے اخبارات اور کتابوں اور ٹیکنا لوجی کو استعمال کرنے پر مجبور ہوں۔بچوں کے اندر ریسرچ کے رجحان کو فروغ دینا چاہئے اور یونیورسٹی کی ڈگری بچے کی ریسرچ، محنت اور کام کو دیکھ کر جاری کرنی چاہئے۔اِس جگہ تک پہنچنے کے لئے ہمیں سکول کی سطح سے محنت کی ضرورت ہے۔سکولوں کے اندر اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بچوں کو تاریخ سے لیکر جدید ترین بیسٹ سیلر کتابیں پڑھائی جائیں۔اِس سے بچوں کے سوچنے اور تخلیقی عمل کو ابھارنے میں مدد ملے گی۔
صاحبِ حیثیت تاجروں کی مدد سے وکیشنل ادارے بنائے جائیں اور جو بچے تعلیم میں بہتر نہ ہوں انہیں ہنر مند بنا کر معاشرے کا ایک ذمہ دار شخص بنایا جا سکتا ہے۔اِس طریقے سے طالبِعلموں کو ٹیکنیکل معلومات بھی میسر ہوں گی اور صنعت بھی ترقی کرے گی۔
بقول علامہ اقبال!
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
دنیا بہت تیزی سے تبدیلی کے مراحل سے گزر رہی ہے اور اِس تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں ہمارا نظامِ تعلیم . . .
تعلیم کی اہمیت سے نہ تو انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اِس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ جدید دور کے . . .
صوبہ سندھ معیشت کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے اہم صوبہ سمجھا جاتا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ پاکستان کا . . .