غیر نصابی سرگرمیوں کی تعلیم میں اہمیت

آج کے تعلیمی ماحول کو دیکھتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ہماری آج کی تعلیم کا مکمل انحصار صرف اچھے گریڈ حاصل کرنے میں ہے۔اور اِس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ اچھے گریڈز بچوں کے تعلیمی سفر میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔بچوں کو سکول سے کالج اور کالج سے اچھی یونیورسٹیز میں جانے کے لیے اچھے گریڈز ہی کی ضرورت پڑتی ہے۔گریڈز کی اِس دوڑ میں ہم یہ بات بھول گئے ہیں کہ تعلیمی زندگی میں غیر نصابی سرگرمیوں کی کتنی اہمیت ہے۔آج کے تعلیمی ماحول کا اگر باغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تمام سرکاری اور غیر سرکاری سکولوں کی توجہ کا مرکز صرف اِس بات پر ہے کہ کسی طرح اُن کے سکول کا  نتیجہ دوسرے سکولوں سے اُوپر آجائے۔ کسی طرح اُن کے سکول کا بچہ ٹاپ پوزیشن حاصل کرلے۔ اور اِس مقصد کو پانے کے لیے سب نے بچوں کو نمبروں کی دوڑ میں ڈال دیا ہے۔ یہ اِسی دوڑ کا نتیجہ ہے کہ آج کل بچے صبح سے شام تک سکول اکیڈمی اور تمام دن کتابوں میں مصروف رہتے ہیں۔
اِس ساری صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے سکولوں سے غیر نصابی سرگرمیوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ہمیں اِس بات کا ادراک ہی نہیں رہا کہ غیر نصابی سرگرمیاں ہمارے بچوں کی زندگی کے عملی میدان میں کتنی اہمیت رکھتی ہیں۔
اکیڈ یمک اور اتھلیٹک غیر نصابی سرگرمیاں کسی بھی بچے کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔یہ سرگرمیاں بچوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیتی ہیں۔یہ بات بھی درست ہے کہ اِن سرگرمیوں سے بچوں کو معاشرتی طور پر بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں اور یہ حاصل ہونے والے فوائد تمام عمر بچوں کے ساتھ چلتے ہیں۔ انہی سرگرمیوں کی بدولت بچے اپنے ہم خیال دوست بناتے ہیں اور زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے خود اعتمادی سیکھتے ہیں۔
غیر نصابی سرگرمیاں اپنے ساتھ جو فوائد لاتی ہیں اُن میں سے چند ایک کچھ یوں ہیں:
)  ٹیم ورک  )  انفرادی یا اجتمائی اہداف کا حصول )  ذمہ داریوں کا احساس  )  اصولوں کی پاسداری  )  تنازعات کا حل
)  تعلیمی کوائف میں بہتری
یہ چند ایک ایسے فوائد ہیں جو کہ بچے کی نہ صرف بہتر نشونماء کا باعث بنتے ہیں بلکہ تمام عملی زندگی میں اُن کی معاونت کرتے ہیں۔آئیے اِن فوائد کو مزید گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ٹیم ورک:
ٹیم ورک ایک ایسی خصوصیت ہے جس کو کوئی بھی کمپنی ملازم رکھتے وقت سب سے پہلے پرکھتی ہے اور خصوصی اہمیت دیتی ہے اِس لیے بچوں کو ٹیم ورک سکھانے کے لیے سکول، کالج اور پھر یونیورسٹیز میں اساتذہ کو خصوصی تربیت دینی چاہئے۔ بچوں کواِس بات کا احساس دلانا چاہئے کہ حقیقی اور عملی زندگی میں ٹیم ورک کی کتنی اہمیت ہے۔نہ صرف یہ ذمہ داری اساتذہ کی ہے بلکہ ماں باپ کو بھی اپنی بیٹی یا بیٹے کو سکھانا چاہئے کہ دوسروں کے ساتھ مل کر کس طرح ایک ٹیم کی صورت میں کام کیا جاتا ہے۔ایک ٹیم کا حصہ ہوتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا اچھے انداز میں اظہار ،  جس سے دوسروں کا احترام بھی ملحوظِ خاطر رہے بہت اہم بات ہے۔ مثال کے طور پر ایک ڈاکٹر اپنے تعلیمی کرئیر میں صرف تعلیم پر توجہ دیتا ہے اور کسی بھی قسم کی غیر نصابی سرگرمیوں میں شرکت نہیں کرتاتو عملی میدان میں ٹیم ورک کی صورت میں اُس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔آپریشن کا عمل ایک مکمل ٹیم ورک ہے جس میں سرجن اپنی ٹیم سے مشاورت کرتا ہے اور آپریشن کے تمام مراحل کے بارے میں اپنی ٹیم کو اعتماد میں لیتا ہے۔ٹیم ورک کی صورت میں کام کرنے والا سرجن آپریشن سے پہلے سارے عمل کو چیک لسٹ کے ذریعے پرکھتا ہے۔ اِس عمل کے ذریعے خطرے اور غلطی کا امکان کم سے کم ہوجاتا ہے۔ یہی اصول زندگی کے دوسرے شعبوں پر بھی لاگو ہوتاہے۔ کسی دفتر میں کام کرنے والے لوگوں سے لیکر مارکیٹنگ کی دنیا میں ہر جگہ ٹیم ورک کی صلاحیتیں ہمیشہ فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں۔کسی کمپنی کی مارکٹنگ میں شامل ایک مینیجر سے لیکر ایک عام ملازم تک سب کو ٹیم ورک کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ 
 انفرادی یا اجتمائی اہداف کا حصول:
کسی ٹیم، کلب یا کسی  بحث و مباحثہ کی ٹیم کا رکن ہونے کی حیثیت سے ایک بچہ اپنے انفرادی اور اجتمائی اہداف کا ذمہ دار ہوتا ہے۔یہی چیز ایک بچے میں اِس بات کا شعور اجاگر کرتی ہے کہ اپنے کام کی جگہ پر کس طرح سے اپنے اہداف کو حاصل کرنا ہے۔اہداف کا تعین کسی شخص کو اِس بات کی رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ وہ اِس وقت کس جگہ پر ہے اور اپنی منزل کو پانے کے لیے اسے ابھی کن کن مراحل کو طے کرنا ہے۔انسان کی زندگی میں کچھ اہداف ایسے ہوتے ہیں جو کہ انفرادی طور پر مکمل کرنے ہوتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو کہ اجتماعی کوششوں کے بغیر ممکن نہیں۔ اِس کی مثال کچھ یوں دی جاسکتی ہے کہ ایک بچہ کسی بھی کھیل میں نہ صرف انفرادی طور پر اپنا کردار ادا کرے بلکہ دوسرے بچوں سے مل کر بھی اُسی طرح سے اپنا کام سر انجام دے۔ ٹیم ورک کسی بھی ٹیم کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔
 ذمہ داریوں کا احساس:
غیر نصابی سرگرمیاں انسان میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس اجاگر کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ایک ٹیم کا حصہ ہوتے ہوئے جو کام انسان کے ذمہ ہوں انہیں بر وقت اور احسن طریقے سے ادا کرنا ایک ایسی قابلیت ہے جس کا احساس بچے کو بچپن سے ہی سکھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔اُن کو اِس بات کا احساس دلانا چاہئے کہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہ کرنے والوں کو اُس کے برے نتائج کا بھی سامنا کر نا پڑ سکتا ہے جو کہ ناکامی کی صورت میں ہوتے ہیں۔جو بچے اپنی ذمہ داریوں کو اچھے طریقے سے نبھانا سیکھ لیتے ہیں وہ اپنی عملی زندگی میں ناکامی کا سامنا نہیں کرتے۔سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے بارے میں سکھایا گیا عمل آنے والی عملی زندگی میں بہت کام آتا ہے۔مثلاً جن بچوں کو شروع سے ہی اپنا ہوم ورک وقت پر کرنے کی عادت ہو وہ بچے اپنی باقی عملی زندگی میں بھی اپنا کام وقت پر ادا کرنے کے عادی ہوجائیں گے۔ یہی مثال نماز کے معاملے میں بھی دی جا سکتی ہے کہ وقت پر نماز کی ادائیگی اپنے روزمزہ کے کاموں کو بھی وقت پر ادا کرنے کا عمل سکھا تی ہے۔
اصولوں کی پاسداری:
ہم سب کی زندگیوں میں اصول تو ہوتے ہیں۔ مگر اپنے بچوں کو اُن اصولوں کی پاسداری کروانا ایک چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔مگر حقیقت یہ ہے کہ  یہ باہر کی دنیا ہی ہے جو بچوں کو اصولوں کی پاسداری کرنا سکھاتی ہے۔اصول جو کہ ذمہ داریوں کی ایک دوسری شکل ہی ہوتی ہے کسی بھی فرد کی زندگی کو سنوانے یا پھر تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔کھیل کے میدان میں اصولوں کی پاسداری نہ کرنے والا شخص اکثر سزا اور جرمانوں کا حق دار ٹھہرتا ہے۔کھیل کے میدان میں چیٹنگ اور امتحانوں میں نقل اصولوں سے انحراف ہوتا ہے۔ اِسی چیز پر اگر بچپن سے بچوں پر توجہ نہ دی جائے تو بڑے ہو کر یہ عادات پختہ ہو جاتی ہیں اور معاشرے میں خرابی کا باعث بنتی ہیں۔ہم بچوں کی کھیل میں چیٹنگ کی عادت کو مذاق میں لیتے ہیں اور اُس کا بچگانہ فعل سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
تنازعات کا حل:
کسی بھی جگہ جہاں دو لوگ کام کرتے ہوں وہاں تنازع کا ہمیشہ امکان موجود ہوتا ہے۔کسی بھی کھیل یا کام میں دو فریق اپنے اپنے انداز میں چیزوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور دونوں ہی سمجھتے ہیں کہ اُن کا خیال ٹھیک ہے تو اِس صورتحال کو کس طرح سے حل کیا جائے۔ایسی صورتحال میں اگر دونوں فریق اِس کو سمجھتے ہوں گے تو ایسی صورتحال کا بہتر حل نکال لیں گے۔بچوں کو آپس کے مسائل کے حل کی تربیت اُن کی آنے والی زندگی میں اُن کی رہنمائی کرتی ہے۔تنازعات کو حل کرنے کا عمل سیکھنا عملی زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔اور یہ صرف غیر نصابی سر گرمیوں کے زریعے غیر محسوس طریقے سے بچوں کو سکھایا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر گھر میں موجود یا پھر جماعت میں موجود بچوں کو دو گرہوں میں تقسیم کر دیا جائے اور کسی ایک موضوع پر بحث کا کہا جائے۔ اِس صورتحال میں آپس میں بحث و تکرار بھی ہوگا اور اختلاف بھی۔ یہیں پر بچوں کو سکھانے کی ضرورت ہو گی کہ اختلافِ رائے کا ہونا قدرتی عمل ہے۔اور کس طرح سے دلائل کے زریعے دوسروں کو اپنی بات سمجھائی جا سکتی ہے۔اور کس طرح اختلاف کی صورت میں صبر کا مظاہرہ کرچاہئے۔ آج ہم اپنے معاشرے کو دیکھیں تو سب سے زیادہ برداشت کا فقدان ہی نظر آتا ہے۔
تعلیمی کوائف میں بہتری:
چاہے کسی کالج میں داخلے کا وقت ہو یا کسی نوکری کے حصول کے لیے تعلیمی کوائف کا بنانا ہو غیر نصابی سرگرمیوں کا موجود ہونا ہمیشہ مفید ہوتا ہے۔ ہمیشہ اُس بچے کو فوقیت دی جائے گی جو غیر نصابی سرگر میوں میں شریک رہا ہو۔یہ چیز اِس بات کو ثابت کرتی ہے کہ یہ بچہ اپنی تعلیم اور غیر نصابی سرگرمیوں دونوں کو اچھے طریقے سے لے کر چلتا رہا ہے اور یہ ایک متوازن شخصیت کا مالک شخص ثابت ہو گا۔
اُوپر بیان کئے گئے فوائد کی روشنی میں اِس بات کی اہمیت کا پتا چلتا ہے کہ ایک متوازن شخصیت کے لیے غیر نصابی سر گرمیوں کا ہونا کتنا ضروری ہے۔بچوں کو رٹے کی تعلیم اور گریڈز کی دوڑ میں ڈالنے سے بچوں کی تربیت کا عمل متا ثر ہو رہا ہے۔بیان کئے گئے فوائد کو سامنے رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو ہم ایک تقابلی جائزہ لینے کے قابل ہو جائیں گے کہ غیر نصابی سرگرمیوں کے ساتھ بچے اور غیر نصابی سر گرمیوں کے بغیر بچوں میں کیا فرق ہو سکتا ہے۔
میں تعلیم کے میدان میں جب نظر دوڑاتی ہوں تو مجھے ہر طرف گریڈز کی دوڑ نظر آتی ہے۔ سکولوں سے غیر نصابی سرگرمیاں ختم ہو چکی ہیں۔ چند دِن پہلے ایجوکیٹرز کی طرف سے ملکی سطح پر اُن کے سکولوں کے درمیاں  چودہواں سپیچ اینڈڈیبیٹ مقابلے 2017/2018کا انعقاد ہوا۔جس میں مجھے مہمانِ خصو صی کے طور پر شرکت کا موقع ملا۔ شریک بچوں کے اعتماد اور تیاری کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور یہ خواہش بھی ہوئی کہ کاش اِس طرح کے مقابلوں کا انعقاد سب تعلیمی اداروں میں بھی کیا جائے۔ اِسی طرح سے ہم مستقبل کے رہنما پیدا کر سکیں گے۔اور انہی بچوں میں سے مستقبل کے لیڈر نکلیں گے۔
بقول شاعر:                خواہشِ پرواز نے اونچا اڑایا ہے مجھے        آسمان پر شوق کا طوفان لایا ہے مجھے

 

پرائمری تعلیم کی اہمیت
پرائمری تعلیم کی اہمیت

پرائمری تعلیم لازمی بنیادی تعلیم کا پہلا قدم ہے۔ یہ تعلیم چار سال سے دس سال کے بچوں کو دی جاتی . . .

خیبر پختونخواہ میں تعلیمی اصلاحات
خیبر پختونخواہ میں تعلیمی اصلاحات

موجودہ حکومت کو کام کرتے ہوئے یہ پانچواں سال اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے اور 2018ء الیکشن کا سال . . .

تحلیقی تعلیم  کی اہمیت
تحلیقی تعلیم کی اہمیت

دنیا بہت تیزی سے تبدیلی کے مراحل سے گزر رہی ہے اور اِس تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں ہمارا نظامِ تعلیم . . .